Mian Tahir Abbas life story A worry a dream in urdu 

🌾 طاہر عباس کی زندگی کی کہانی — ایک جدوجہد، ایک خواب

10 اکتوبر 1995 کی ایک خاموش صبح تھی، جب ضلع خانیوال کی تحصیل کبیر والا کے ایک چھوٹے سے دیہات چاہ لومڑانوالا میں ایک بچے نے آنکھ کھولی۔ گھر میں نہ کوئی خاص خوش حالی تھی اور نہ ہی زندگی کے بڑے خواب، مگر یہ بچہ جس کا 

نام طاہر عباس رکھا گیا، قسمت سے لڑنے والا اور محنت کو اپنی طاقت بنانے والا تھا۔



اس کے والد ایک عام مزدور تھے جو دن رات محنت کرکے گھر کا چولہا جلایا کرتے تھے۔ زندگی کی دوڑ میں اُن کے پاس دولت نہیں تھی مگر عزم بہت تھا۔ طاہر کا بچپن غربت، مٹی، اور پسینے کی خوشبو میں گزرا۔ وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ کھیتوں یا مزدوری کے کام پر جاتا، جہاں سے اس نے سیکھا کہ زندگی کسی کے لیے آسان نہیں، مگر حوصلہ رکھنے والا کبھی ہارتا نہیں۔


🏫 تعلیم کی پہلی روشنی


جب طاہر نے اسکول جانا شروع کیا، تو یہ اس کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اسکول تک پہنچنے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا، مگر وہ ہر دن وقت پر اسکول پہنچتا۔ اس کے پاس کبھی نیا بستہ نہیں ہوتا، کبھی جوتے پھٹے ہوتے، اور کبھی کتابوں کی کمی، لیکن دل میں علم حاصل کرنے کی آگ ہمیشہ روشن رہتی۔


گاؤں کے چند نیک دل لوگوں نے اُس کی اسکول داخلے میں مدد کی۔ 2007 میں جب اُس نے پرائمری تعلیم مکمل کی، تو یہ صرف ایک تعلیمی کامیابی نہیں تھی — بلکہ غربت کے خلاف ایک فتح تھی۔


🛠 مزدوری اور تعلیم ساتھ ساتھ


پرائمری کے بعد حالات نے اسے آگے پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ گھر کا خرچ بڑھ گیا، اور والد کی عمر کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کم ہونے لگی۔ ایسے میں طاہر نے خود فیصلہ کیا کہ وہ پڑھائی بھی کرے گا اور مزدوری بھی۔


2011 میں وہ تعلیم کے لیے دوسرے علاقے منتقل ہوا۔ دن کے وقت مزدوری، شام کو پڑھائی — یہ معمول بن گیا۔ وہ اکثر تھکا ہارا بستر پر گر جاتا مگر کبھی شکایت نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک ہر دن ایک نیا چیلنج تھا، اور وہ ہر چیلنج کا مقابلہ ایک سپاہی کی طرح کرتا۔


🎓 میٹرک کا خواب — 2020 کی کامیابی


وقت گزرتا گیا۔ سال 2020 آیا، اور طاہر نے اپنی تمام مشکلات کے باوجود میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اُس دن اس کی آنکھوں میں آنسو تھے — خوشی اور تکلیف دونوں کے۔ خوشی اس لیے کہ وہ کامیاب ہو گیا، اور تکلیف اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔


اس کامیابی کے بعد بھی اس نے مزدوری جاری رکھی۔ غربت کے سائے ابھی بھی اُس کے گھر پر تھے، لیکن اُس کے دل میں امید کا دیا پہلے سے زیادہ روشن ہو چکا تھا۔


📘 تعلیم کا تسلسل — انٹرمیڈیٹ 2024


چار سال بعد، 2024 میں، اُس نے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کی۔ اس وقت وہ ملتان میں ایک مقامی سروس اسٹیشن پر پینٹ کا کام کرتا تھا۔ دن بھر گاڑیوں پر رنگ چڑھاتا، شام کو کتابوں میں کھو جاتا۔ بعض اوقات ہاتھوں سے رنگ نہیں اترتا تھا، مگر وہ کہتا تھا:


> "یہ رنگ میری محنت کا ثبوت ہیں، اور کتابیں میرے خوابوں کی تعبیر۔"




🏠 زندگی آج بھی جدوجہد میں ہے


آج بھی طاہر عباس کا اپنا گھر نہیں ہے۔ وہ کرایہ کے مکان میں رہتا ہے، زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات کام کرتا ہے۔ مگر ایک چیز جو اُس نے کبھی نہیں کھوئی — وہ ہے امید۔ وہ اب بھی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے، خواب ہے کہ وہ گریجویشن مکمل کرے اور اپنے گاؤں کے بچوں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنے۔


غربت اُس کی راہ میں بارہا آئی، مگر اُس نے ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُس کے کپڑے سادہ ہیں، جیب خالی ہوتی ہے، مگر دل بھرا ہوا ہے — حوصلے، ایمان، اور محنت سے۔


🌙 حوصلے کی کہانی


طاہر کی کہانی صرف ایک فرد کی نہیں، یہ اُن لاکھوں نوجوانوں کی کہانی ہے جو حالات کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو مانتے ہیں کہ محنت چھوٹی نہیں ہوتی، اور خواب کبھی مر نہیں جاتے۔


اس نے نہ کبھی ہاتھ پھیلائے، نہ قسمت کو الزام دیا۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے:


> "میں غریب ہوں، مگر خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔"




💬 مدد اور تعاون کے لیے


اگر آپ اس باہمت نوجوان کی مدد کرنا چاہیں — چاہے تعلیم میں، روزگار میں، یا کسی بھی انسانی جذبے کے تحت — تو آپ اس سے براہِ راست رابطہ کر سکتے ہیں:


Contact Us:

📞 0092 3032950729

💬 Tahirpdcm@gmail.com


آپ کا ایک قدم طاہر عباس جیسے نوجوان کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔



🌟 اختتامی پیغام


یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی، مگر ایمان اور محنت سے ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔

طاہر عباس آج بھی اُس روشنی کی تلاش میں ہے جس سے نہ صرف اُس کی زندگی، بلکہ اُس کے جیسے بے شمار نوجوانوں کے راستے روشن ہوں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post